مساجد، درگاہیں، قبرستان اور عیدگاہوں کو چیریٹیبل ٹرسٹ کے طور پر رجسٹر کرنا ایک سنگین قانونی غلطی ہوگی، کیونکہ یہ ان کے مذہبی تشخص اور وقف کے تحت ملنے والے تحفظات کو ختم کر سکتا ہے
مولانا ڈاکٹر دانش لانبے
مسلمانوں کے لیے مساجد، درگاہیں، قبرستان اور عیدگاہیں نہ صرف عبادت کے مقامات ہیں بلکہ یہ ان کی دینی، ثقافتی اور تاریخی شناخت کا بھی حصہ ہیں۔ ان اداروں کی رجسٹریشن میں کوئی بھی غلطی نہ صرف ان کے قانونی تحفظ کو خطرے میں ڈال سکتی ہے بلکہ ان کے مذہبی تشخص کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم ان اداروں کے قانونی اور مذہبی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور ان کے درست اندراج کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے۔
وقف ایکٹ 1995: تحفظ اور اہمیت
ہندوستان میں وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے وقف ایکٹ 1995 نافذ کیا گیا ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی، فلاحی اور پُرانی جائیدادوں کے انتظام و انصرام کا ایک منظم نظام فراہم کرتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت:
- وقف کی تعریف: وہ جائیداد جو مذہبی، پُرانی یا فلاحی مقاصد کے لیے وقف ہو۔
- رجسٹریشن کا عمل: تمام وقف جائیدادوں کو متعلقہ ریاستی وقف بورڈ میں رجسٹر کروانا قانونی طور پر ضروری ہے۔
- تحفظ: وقف بورڈ ان جائیدادوں کے تحفظ اور ان کی غیر قانونی فروخت یا قبضے سے بچانے کے لیے ذمہ دار ہے۔
مساجد، درگاہیں، قبرستان اور عیدگاہیں واضح طور پر وقف کی تعریف میں آتی ہیں اور انہیں اسی زمرے کے تحت رجسٹر کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کو اپنے مذہبی اداروں کے تحفظ کے لیے قانونی مشورہ حاصل کرنا، معاشرتی شعور پیدا کرنا، اور وقف بورڈ کے ذریعے اپنی جائیدادوں کا اندراج کروانا ضروری ہے تاکہ ان کا تحفظ اور مذہبی شناخت برقرار رہے۔
چیریٹیبل ٹرسٹ اور مذہبی ادارے
بعض حلقے ان مذہبی اداروں کو چیریٹیبل ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت رجسٹر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک سنگین قانونی اور مذہبی غلطی ہو سکتی ہے، کیونکہ:
- مذہبی تشخص کا نقصان:
- چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت رجسٹر ہونے سے ان اداروں کی مذہبی شناخت ختم ہو سکتی ہے۔
- ایسے ادارے عمومی فلاحی زمرے میں آ جاتے ہیں جو اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے۔
- تحفظات سے محرومی:
- وقف ایکٹ کے تحت ملنے والے قانونی تحفظات اور حقوق ختم ہو سکتے ہیں، جس سے ان جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے یا استعمال کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
- غلط مقاصد کے لیے استعمال:
- چیریٹیبل ٹرسٹ کے قوانین میں زیادہ نرمی ہونے کی وجہ سے ان جائیدادوں کا استعمال غیر مذہبی یا منافع بخش کاموں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
مدارس اور تعلیمی ادارے
مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ انہیں تعلیمی زمرے یا چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت رجسٹر کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ سرکاری امداد اور تسلیم شدگی حاصل کر سکیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ:
- مدارس اپنی اسلامی تعلیمات کے اصل مقصد کو برقرار رکھیں۔
- ان کے انتظام میں بھی دینی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے۔
مدارس کو تعلیمی یا چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت رجسٹر کرنا قابل قبول ہے، لیکن مساجد، درگاہیں اور قبرستان جیسے مذہبی اداروں کو صرف وقف زمرے میں رجسٹر کرنا ہی مناسب ہے۔
آئینی تحفظات
ہندوستانی آئین مسلمانوں کو اپنے مذہبی اداروں کے قیام اور انتظام کا مکمل حق فراہم کرتا ہے:
- آرٹیکل 25: ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے۔
- آرٹیکل 26(b): ہر مذہبی فرقے کو اپنے ادارے قائم کرنے اور انہیں منظم کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
مذہبی اداروں کو وقف کے بجائے چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت رجسٹر کرنا ان آئینی حقوق کے منافی ہو سکتا ہے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 مسلمانوں کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا مکمل حق دیتا ہے، جسے غلط رجسٹریشن کے ذریعے محدود نہیں کیا جا سکتا۔
معاشرتی اور قانونی شعور کی ضرورت
- مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مذہبی اداروں کی رجسٹریشن کے عمل اور قانونی پیچیدگیوں سے لاعلم ہے۔ اس لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض افراد یا تنظیمیں ان جائیدادوں کا غلط استعمال کر سکتی ہیں۔
- علمائے کرام، وکلا، اور سماجی رہنما اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوام کو ان اداروں کی قانونی حیثیت اور رجسٹریشن کے درست طریقے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
بین الاقوامی تناظر
دوسرے ممالک جیسے سعودی عرب، ترکی، اور دیگر مسلم ممالک میں مذہبی اداروں کے تحفظ کے لیے سخت قوانین موجود ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ان ممالک کے نظام سے سیکھنا چاہیے اور اپنی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
وقف بورڈ کی کارکردگی اور اصلاحات
وقف بورڈ کو اپنی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں نبھانے کی ضرورت ہے:
- جائیدادوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل بنانا۔
- غیر قانونی قبضے اور تنازعات کو جلد از جلد حل کرنا۔
- شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانا تاکہ اعتماد بحال ہو سکے۔
اہم نکات: رجسٹریشن کے لیے رہنما اصول
- مساجد، درگاہیں، قبرستان، اور عیدگاہیں:
- صرف وقف ایکٹ کے تحت رجسٹر کریں۔
- چیریٹیبل ٹرسٹ یا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن سے اجتناب کریں۔
- مدارس:
- تعلیمی اداروں کے زمرے میں رجسٹریشن کریں، لیکن دینی شناخت کا تحفظ یقینی بنائیں۔
- قانونی مشاورت:
- کسی بھی قسم کی رجسٹریشن سے پہلے ماہرین سے مشورہ کریں تاکہ کوئی قانونی پیچیدگی نہ ہو۔
اختتامیہ
مسلمانوں کے مذہبی ادارے ان کی دینی، تہذیبی، اور تاریخی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے معاملے میں غفلت یا لاپروائی نہ صرف ان اداروں کے نقصان کا سبب بنے گی بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی خطرات پیدا کرے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ مساجد، درگاہیں، قبرستان اور عیدگاہوں کو صرف وقف ایکٹ کے تحت رجسٹر کیا جائے تاکہ ان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور ان کے مذہبی تشخص کو برقرار رکھا جا سکے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جائیدادوں کی حفاظت کے لیے ہوشیار رہیں اور درست قانونی راستہ اختیار کریں، کیونکہ یہ ادارے ان کے ایمان اور ورثے کی علامت ہیں۔